انسانی حقوق کا عالمی دن اور پامال ہوتے ہوئے مظلوموں کے حقوق!!!

انسانی حقوق کا عالمی دن اور پامال ہوتے ہوئے مظلوموں کے حقوق!!!

آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، 10دسمبر 1948کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 30شقوں پر مشتمل اِس تاریخ ساز دستاویز یا آفاقی منشور کی منظوری دی جسے نسلِ انسانی کی تہذیبی ترقی اور شعوری عظمت کی معراج قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ 1215کے میگنا کارٹا، امریکی اعلانِ آزادی، انقلابِ فرانس یا رؤسو کے افکار ہی نہیں، صدیوں پر محیط شعورِ انسانی کی جدوجہد کا ثمر ہے، یہ واحد دستاویز ہے جو تیار تو فرانسیسی اور انگریزی میں کی گئی تھی مگر اِس کے تراجم دنیا میں سب سے زیادہ زبانوں میں کئے گئے ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں شمولیت اختیار کرنے والے ممالک جب اِس عالمی میثاقِ انسانیت پر دستخط کرتے ہیں تو گویا اقوامِ عالم کے سامنے یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے ممالک اور اقوام میں اِن ارفع و برتر انسانی اقدار کی پاسداری کریں گے۔

اِس مختصر کالم میں تیس شقوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، اختصار کے ساتھ عرض ہے کہ انسانی حقوق، انسانی وقار اور آزادیوں میں کوئی نسلی، مذہبی یا جنسی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ تمام انسان آزاد اور عزت و حقوق کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں، اُنہیں ضمیر اور عقل و شعور ودیعت کیا گیا ہے، کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اُنہیں لونڈی یا غلام بنا کر رکھے یا بردہ فروشی کرے یا امتیازی رویہ اپنائے یا تذلیل کرے یا جان و مال کو نقصان پہنچائے۔

ہر انسان کو آزادیٔ فکر، آزادیٔ ضمیر اور آزادیٔ مذہب کا پورا حق حاصل ہے۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ جو چاہے مذہبی عقیدہ رکھے یا اُسے تبدیل کر لے یا اُسے ترک کر دے یا کوئی بھی عقیدہ نہ رکھے۔

ہر انسان کو پُرامن طور پر یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات اور عقائد پر عمل کر سکے اور اُن کی تبلیغ و تشہیر کر سکے یا پُرامن طور پر تنظیم سازی کر سکے، ہر انسان کو تعلیم، صحت، روزگار اور بنیادی انسانی سہولیات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے انسانی حقوق اور آزادیوں میں رخنہ ڈالے۔

تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی نشوونما ہو گا۔ تعلیم، اقوامِ عالم اور نسلی و مذہبی گروہوں کے درمیان باہمی مفاہمت، رواداری اور دوستی کو ترقی دے گی اور امنِ عالم کو برقرار رکھنے کے لئے اقوامِ متحدہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گی، اِس طرح رائے کی آزادی یا ووٹ کی عزت کو اُتنا ہی تقدس بخشا گیا ہے جتنا انسانی جان و مال اور آبرو کو۔

اقوامِ متحدہ میں شمولیت اختیار کرنے والی اقوام نے اِس بات کا بھی عہد کر رکھا ہے کہ وہ اپنے ممالک میں انسانی حقوق کے اِس عالمی چارٹر پر نہ صرف خود عمل پیرا ہوں گی بلکہ اُن اعلیٰ انسانی اقدار کو اپنے عوام میں رائج و راسخ کرنے کیلئے اُن کی کماحقہ تشہیر کریں گی۔

یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے مختلف ادارے دنیا بھر میں بالعموم اور غریب ممالک میں بالخصوص بچوں سے لے کر بزرگوں تک بلاتمیز نسل، جنس یا مذہب بھوک، ننگ، بیماریوں یا قدرتی آفات میں مدد کیلئے پیش پیش رہتے ہیں۔

جنگوں میں بھی جنیوا کنونشنز کے مطابق انسانی آبادیوں، اسپتالوں یا انسانی فلاحی مقامات پر انسانی بچائو یا بہبود کیلئے تن دہی سے تگ و دو کرتے ہیں، یو این کی کامیابیوں یا ناکامیوں کا تنقیدی جائزہ لیا جا سکتا ہے لیکن انسانی عظمت و وقار کو آگے بڑھانے کا ہمارے پاس اِس سے بہتر متبادل کوئی نہیں۔

یو این ہیومن رائٹس چارٹر کا اولین تقاضا یہ ہے کہ تمام اقوام اپنے اپنے ممالک میں سوسائٹی کے کمزور طبقات بالخصوص خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا سہارا بنیں، اُنہیں برابر کے شہری و انسانی حقوق دلانے کیلئے ہر نوع کے امتیازی قوانین اور رویوں کے خاتمے کو یقینی بنائیں۔

ہر سوسائٹی کا میڈیا نہ صرف خود اپنی آزادی کے حق کو منوانے کیلئے پوری یکجہتی و طاقت کے ساتھ ڈٹ جائے بلکہ کمزور طبقات کی زبان اور سہارا بنے۔

اب اگر درویش اِن ارفع انسانی اصولوں اور آدرشوں کی روشنی میں اپنی سوسائٹی یا سماج کا جائزہ لے تو سخت مایوسی اور دکھ میں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

کیا کہیں سے ایسی کوئی مضبوط آواز اٹھ رہی ہے کہ یو این ہیومن رائٹس چارٹر کو ہر سطح پر ہمارے تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہئے؟ اگر آج کے دن تک ایسا نہیں ہو سکا تو اِس کا ذمہ دار کون ہے؟ اُس کے برعکس ہمارا نصاب اور میڈیا مختلف النوع تعصبات کے تحت اکثر و بیشتر منافرت کو پروموٹ کرتا ہے۔

ہماری بربادی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم حال میں نہیں ماضی میں جی رہے ہیں۔ اِس کائنات میں انسانی جان سے زیادہ حرمت والی کوئی چیز نہیں مگر افسوس اِس مملکتِ خدا داد میں انسانی خون و وقار سے ارزاں کوئی چیز نہیں رہی، جب انسانی جان کی ناموس و حرمت نہیں ہو گی تو پھر اُس کی رائے اور سوچ کی بھی ایسی ہی تذلیل ہو گی جیسی 70برسوں سے یہاں روا رکھی جا رہی ہے۔

ایک طرف جہاں دنیا میں آج انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے، وہیں دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارت کے مظالم کا شکار مظلوم کشمیریوں کے حقوق کی پامالی سات دہائیوں سے مسلسل جاری ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی دن پر جاری کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 30 سال کے دوران بھارتی فورسز نے 95 ہزار سے زائد نہتے کشمیریوں کو شہید کیا۔

جبکہ سات ہزار سے زائد کشمیریوں کو قابض بھارتی فورسز نے ماورائے عدالت قتل کیا، پُرامن مظاہرین پر گولیوں، چھروں اور آنسو گیس شیلنگ سے ہزاروں کشمیریوں کو زخمی کیا، قابض بھارتی فورسز نے کشمیریوں کے مذہبی آزادی کے حقوق غصب کر رکھے ہیں۔

گذشتہ سال اگست سے کشمیریوں کو جامع مساجد میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں، محرم اور عیدمیلادالنبیﷺ کے جلوسوں پر بھی پابندی عائد رکھی گئی، رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی ختم کرانے کے لیے عالمی برادری بھارت پر دباؤ ڈالے۔

جن لوگوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کا دن منایا اگر وہ اپنے گھر سے ہی بنیادی حقوق دینے کا عزم کرلیں تو بہت سے مسائل کی گتھی سلجھنا شروع ہو جائے گی۔

اقوام عالم یا اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنے سے پہلے ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا تاکہ ہم اپنے آپ کو ایک قوم منوا سکیں جو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کے بجائے یک زبان ہوکر اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کر سکے۔

ہم نے کیا کبھی خود کبھی ریاست جموں وکشمیر کے بیانیے یا ریاست کے اندر لوگوں کی فکری اور شعوری تربیت کے بارے میں سوچا؟ کیا برادری، نسل، قبیلہ اور مذہبی تقسیم کی زنجیروں کو توڑنے کی سعی کی؟

کیا کبھی ہم نے ایک دوسرے کے بولنے کے حق کو ہی تسلیم کیا؟ کیا ایک دوسرے کے سیاسی نظریے پر تنقید کے بجائے اس کی پسند کی آزادی دے کر دیکھا؟ کیا کبھی ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہوئے ایک سمت میں چل کر دیکھا؟

انسانی حقوق کے بین الاقوامی دن مندرجہ بالا سب خامیوں کے باوجود ریاست جموں کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جہاں بنیادی حقوق کی بات ہوتی ہے، جہاں آزادی اورقومی شناخت کی بات کی جاتی ہے لیکن کوئی ذاتی حیثیت میں دوسرے انسان تک حق دینے کے لیے تیار نہیں۔

کہیں عورتوں کے حقوق غصب ہو رہے ہیں اور کہیں بچوں کے، مگر ہمارا نعرہ ہے کہ ہمیں اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں شامل سارے انسانی حقوق دیئے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں

خرابہ

لبنان پر حملے میں صیہونی حکومت کے قریب اور دور کے مقاصد

پاک صحافت صیہونی حکومت واضح طور پر علاقے میں جنگ کے دائرے میں توسیع کی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے