خاک میں ملتا امریکی غرور اور ذلت و رسوائی سے دوچار امریکی تکبر

خاک میں ملتا امریکی غرور اور ذلت و رسوائی سے دوچار امریکی تکبر

(پاک صحافت) پچھلے ہفتے امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹس چیف نے اپنی چھ مختلف افواج کے سربراہوں کو ایک خط لکھا، اِس خط میں اِس نے بہت جذباتی انداز اپنایا اور اپنے تمام فوجی سربراہان کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ امریکی عوام ہماری تقریباً ڈھائی سو سالہ خدمات کو بہت سراہتے ہیں، اُنہیں ہماری خدمات پر اعتماد ہے، فخر ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ملکی استحکام کے لئے ہماری افواج کا کردار بہت اہم ہے، عوام حالیہ حالات میں بھی ہم سے ایسی ہی توقع رکھتے ہیں، ہمیں اِس توقع پر پورا اترنے کیلئے چوکس رہنا ہوگا۔

افواج کے نچلے کمانڈروں کو بھیجے گئے اِس خط پر چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی، وائس چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف جوہن ہیٹن، آرمی چیف جنرل جیمز، میرین کے سربراہ جنرل ڈیوڈ برگر، نیول آپریشن کے چیف ایڈمرل مچل گلیڈی، ایئر فورس کے سربراہ چارلس برائون، سپیس آپریشنز کے سربراہ جوہن رے مونڈ اور نیشنل گارڈز کے سربراہ جنرل ڈینیل ہوکانسن کے دستخط موجود ہیں۔

اِس خط پر اُن تمام کے دستخطوں کا ایک مقصد تھا کہ ہر جگہ یہ پیغام پہنچ جائے کہ امریکی افواج متحد ہیں،  یہ خط اُس وقت لکھا گیا جب امریکہ میں پُرتشدد حالات کی آمد کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔

امریکہ کی تمام ریاستوں اور شہروں کا کنٹرول اِس وقت عملاً فوج کے ہاتھ میں ہے، آپ کو ہر ریاست میں فوجی دستے نظر آئیں گے، بڑے شہر تو فوجیوں سے بھرے ہوئے ہیں، اِس وقت واشنگٹن فوجی چھائونی کا منظر پیش کر رہا ہے۔

آج امریکہ کے خفیہ ادارے پریشان ہیں، وہ پُرتشدد واقعات کا یقین ظاہر کر رہے ہیں، فسادات کا خدشہ ہے امریکی ایجنسیاں پریشان ہیں، کیپٹل ہل کے قریب سے بڑی مقدار میں اسلحہ پکڑا گیا ہے۔

پولیس کی جعلی وردیوں میں ملبوس افراد پکڑے گئے ہیں تمام ریاستوں کی سرکاری عمارتوں پر فوجی دستے تعینات ہیں، یہ ہے آج کا امریکہ، جو ہر آتے دن کے ساتھ مزید کمزور ہوتا جائے گا، اس کا تمام غرور خاک میں ملتا ہوا نظر آئے گا۔

یاد رکھنا عروج کو زوال نہیں ہوتا، زوال غرور کو ہوتا ہے مگر یہ بھی یاد رکھنا عروج والے اکثر مغرور ہو جاتے ہیں، عاجزی ان کے گھروں سے روٹھ جاتی ہے اگر عروج میں کوئی عاجز رہے تو عروج قائم رہتا ہے مگر امریکی ان باتوں کو کہاں سمجھتے ہیں۔

حالیہ امریکی حالات کا منظر درویش کے سامنے رکھا تو درویش دھیمی آواز میں بولا ’’کسی بھی عروج والے ملک میں طاقت کے چار ستون ہوتے ہیں پہلا ستون معیشت ہے، دوسرا فوج، تیسرا اس کا بیرونی اثر و نفوذ اور چوتھا اس کا اپنا ملکی نظام، اب آپ معیشت کو دیکھ لیں۔

امریکی معیشت مقروض ہے، امریکہ صرف چین کا ساڑھے اٹھارہ ٹریلین ڈالر سے زائد کا مقروض ہے، وہ آدھا امریکہ بیچ بھی دیں تو قرضہ نہیں اترتا پھر دوسرے ملکوں کے قرضے بھی ہیں۔

دوسرے نمبر پر فوج ہے پچھلی چند دہائیوں سے امریکی افواج اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں بلکہ امریکی افواج کو پسپا ہونا پڑا ہے جو روس کی مثال پیش کرتے ہیں وہاں تو صرف امریکی سرمایہ خرچ ہوا تھا باقی سارا کام تو آئی ایس آئی نے کیا تھا، وہ تو پاکستان کا کریڈٹ ہے مگر بعد میں امریکیوں نے پاکستان سے بھی آنکھیں پھیرنا شروع کر دی تھیں، اپنے محسنوں کی قدر کرنی چاہئے، امریکیوں نے اپنے محسنوں کی قدر نہیں کی۔

تیسرے نمبر پر ہے بیرونی اثر و نفود، چند سال پہلے تک یورپ کے بہت سے ممالک اور تیسری دنیا کے ممالک امریکہ کے ایک اشارے پر ووٹ دے دیا کرتے تھے اب ایسا نہیں، پہلے کئی ممالک امریکہ کے کہنے پر افواج بھیج دیتے تھے مگر اب ایسا نہیں۔

سو امریکہ کا بیرونی دنیا پر اثر و نفود پہلے جیسا نہیں رہا، طاقت کا چوتھا ستون ملکی نظام میں استحکام ہے اب امریکی لوگ اپنے نظام سے مطمئن نہیں ہیں، وہاں کا نظام ہچکولے کھا رہا ہے لوگوں میں نفرت بڑھ رہی ہے وہ اپنی جمہوریت سے بھی راضی نہیں ہیں، اپنے الیکشن کے نظام سے بھی پریشان ہیں، امریکہ میں اسی لئے خوف کی لہر ہے، یہ لہر وہاں فسادات برپا کر دے گی وہاں ہر طرف ہنگامے نظر آئیں گے، خانہ جنگی ہوگی۔

صاحبو! طاقت کا توازن بدل رہا ہے، عالمی طاقت ایشیا میں شفٹ ہو رہی ہے، پاکستان اس کا اہم کردار ہوگا، تم اپنی فوج اور آئی ایس آئی پر فخر کرو گے۔

یاد رکھنا کہ پچھلے پچاس سال امریکہ جنگوں میں الجھا رہا، جنگیں لڑتا رہا اور چین خاموشی سے ترقی کرتا رہا، چین نے پُرامن رہ کر بہت کچھ حاصل کیا اور امریکہ نے بہت کچھ پانے کی آرزو میں بہت کچھ کھو دیا۔

یہی بڑا فرق چین کو امریکہ سے ممتاز کرتا ہے آج امریکہ لرز رہا ہے اور چین خاموشی سے عروج کی طرف گامزن ہے۔

یہ بھی پڑھیں

الاقصی طوفان

“الاقصیٰ طوفان” 1402 کا سب سے اہم مسئلہ ہے

پاک صحافت گزشتہ ایک سال کے دوران بین الاقوامی سطح پر بہت سے واقعات رونما …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے