دنیا کو معلوم ہے کہ بھارت، پاکستان کا کھلا دشمن ہے، پاکستان کی طرف سے متعدد بار اچھے پڑوسیوں کی طرح امن و سلامتی سے رہنے اور خیرسگالی کے اظہار اور پیغامات کا اظہار کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے بھارت نے ایسی کوششوں پر کبھی مثبت اظہار نہیں کیا بلکہ پاکستان کے خلاف ہر طرح سےا قدامات کو مزید فروغ دینے کی کوشش کی، یہ اس خطے کے لئے بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی بجائے تعلقات کو مزید بگاڑنے کی کوششیں کررہا ہے۔ چین کے ساتھ لداخ میں معاملات کو مزید خراب کرنے کی تیاریاں کررہا ہے۔
پاکستان کے خلاف نہ صرف جھوٹا پروپیگنڈہ تسلسل سے جاری رکھا ہوا ہے بلکہ پاکستان کے اندر دہشت گردی، تخریب کاری اور مذہبی و فرقہ وارانہ نفرت پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر بھی بعض لوگ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بھارت کے مذموم عزائم کو تقویت پہنچانے کی کوششیں کررہے ہیں، گزشتہ کچھ عرصہ سے بعض سیاسی رہنمائوں کے بیانات ان کوششوں کی واضح مثالیں ہیں۔
کیا یہ پاکستان کے ساتھ دشمنی نہیں ہےکہ فوجی قیادت کے بارے میں بے بنیاد الزامات عائد کئے جائیں اور بے سروپا باتیں کی جائیں؟ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے بیانات کو دیکھ لیں۔ سب سے اہم بیان وہ ہے جو مسلم لیگ (ن) کے رہنما، رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے دیا۔
سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ نریندر مودی کی جنگ کی دھمکی پر فیصلہ سازوں کی ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔ بھارت اوربھارتی میڈیا نے ایاز صادق کے اس بیان کو خوب اچھالا۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ ایاز صادق نے اپنے اس بیان کی تاحال نہ تردید کی نہ تصحیح کی اور نہ ہی اس پر معذرت کی بلکہ وہ اپنے بیان اور الفاظ پر تاحال قائم ہیں۔ کوئی تو پوچھے کہ آخر ایسا بیان دینے کی کیا تک اور ضرورت تھی؟
اگر اُنہوں نے یہ بیان نادانستگی میں دیا تھا یا الفاظ کے چنائو میں غلطی ہوئی تھی تو اُنہوں نے اب تک اس پر معذرت کیوں نہیں کی اور اس کی تصحیح کیوں نہیں کی؟ اس کا تو پھر یہی مطلب بنتا ہے کہ انہوں نے سوچ سمجھ کر ایسابے سروپا اور لغو بیان دیا تھا جس کے کچھ خاص مقاصد ہوسکتے ہیں یا کسی کو خوش کرنا مقصود تھا۔
اگرچہ ان کے بیان سے کوئی فرق نہیں پڑسکتا تھا، اور وہ خود بھی جانتے ہیں بلکہ دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت کا موثر جواب دینا جانتا ہے، اگر بھارت میں اتنی جرأت ہوتی تو وہ چھپ چھپا کر پاکستان کے اندر دہشت گردی اور فرقہ واریت پھیلانے کیلئےبھاری رقوم خرچ نہ کرتا۔
لیکن اگر پاکستان کے اندر بعض سیاستدان نازیبا اور بے سروپا بیانات دیتے ہیں تو یقیناً یہ پاکستان سے محبت نہیں بلکہ دشمن کو تقویت دینے کی کوشش ہوگی اور یہ کسی بھی شکل میں ملک دشمنی سمجھی جائے گی۔
اب بھی امید ہے کہ سردار ایاز صادق اپنے بیان پر معذرت کریں گے اور الفاظ کی تصحیح اور وضاحت کردیں گے تاکہ یہ کدورت ختم ہو۔ میرے الفاظ و تحریر کا مقصد ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ مجھے ایاز صادق جیسے سینئر سیاستدان کی حب الوطنی پر شک ہے اور نہ ہی مجھے یہ اختیار اور حق حاصل ہے۔
میرا مقصد اس دکھ کا اظہار ہے کہ ایاز صادق جیسے محب وطن اور سینئر سیاستدان نے یہ بیان دے کر نہ صرف دشمن کو تقویت پہنچائی بلکہ عسکری قیادت، افسران اور جوانوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کا دل دکھایا۔ مجھے امید ہے کہ وہ اس پر ضرورمعذرت کریں گے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پاکستانی ڈوزئیر پیش کیا گیا ہے اور امید ہے کہ وہ ان صفحات اور الفاظ کا بغور مطالعہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں گے بلکہ یہ بھی امید واثق ہے کہ وہ اس اہم دستاویز جو ثبوتوں پر مبنی ہے، کو دیکھتے ہوئےبھارت کے خلاف اقدامات پر بھی غور کریں گے۔
پاکستان کی طرف سے اس ڈوزئیر کو مختلف ممالک کو بھی بھیجا گیا ہے، یہ کوئی عام دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ ڈوزئیر ٹھوس حقائق پر مبنی ناقابلِ تردید ثبوت ہیں جس میں بھارت کی طرف سے پاکستان کیخلاف اقدامات کی تفصیل موجود ہے۔
بھارت پاکستان کے اندر فرقہ واریت پھیلانے کی کوششیں کرچکا ہے جن کو ناکام بنایا گیا۔ اب بھارت پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کرانے کی کوششیں کررہا ہے۔
کئی تربیت یافتہ دہشت گردوں کو پاکستان بھیج رہا ہے، جن کے یقیناً یہاں سہولت کار بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کی حماقت اور غلطی بھی کرسکتا ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما کھل کر نہ صرف ان بھارتی کوششوں کی مذمت کریں بلکہ اس بارے میں قوم کو آگاہ بھی کریں، تاکہ ہر پاکستانی مشکوک حرکات کرنے والوں سے متعلقہ اداروں کو بروقت مطلع کرے۔
سیاسی رہنماچاہے وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں، متحد ہو کر افواجِ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور ملک دشمنوں کا قلع قمع کرنے کا واضح اور یک زبان ہوکر دنیا کو بھارتی عزائم کے بارے میں پیغام دیں، یہ انتہائی ضروری اور وقت کا تقاضا ہے، بےشک پاکستان ہے تو ہم ہیں۔
اس لیئے ضروری ہے کہ عالمی برادری کے سامنے بھارت کے ہمسایہ ممالک سے اختلافات اور تنازعات کو اجاگر کیا جائے، پاکستان ہی نہیں چین، نیپال،بنگلہ دیش اور سری لنکا کو بھی بھارت سے شکایات ہیں، بھارت معاشی اور فوجی طاقت بننے کے چکر میں خود کو علاقائی تھانے دارسمجھے بیٹھا ہے۔
بھارت کے پاکستان کے ساتھ 73سال سے تعلقات کشیدہ ہیں، امن کی تمام ترکوششیں بے ثمر ہیں، “بھارت عالمی برادری کو ہمیشہ سے دھوکہ دیتا آرہا ہے”پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ تعلقات میں کشمیر بنیادی وجہ ہے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے بہت کوششیں ہوئیں جن میں آگرہ، شملہ اور لاہور ڈیکلریشن شامل ہیں۔
سرحدی کشیدگی اوردہشت گردی کے واقعات نے ان امن تعلقات کو سبوتاژ کیا، اب بھارت کی انتہا پسندحکومت کے برسراقتدارآنے سے تو امن کی توقع ہی نہیں رہی، اس لیئے اب ضروری ہے بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دیا جائے تاکہ پاک وطن کا یہ کھلا دشمن کبھی بھی پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کی ہمت نہ کرے۔