جو بائیڈن انتظامیہ اور افغان امن معاہدہ

جو بائیڈن انتظامیہ اور افغان امن معاہدہ

(پاک صحافت) ٹرمپ دور کے طالبان امریکہ امن معاہدے پر جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے نظر ثانی کا اشارہ دیا جانا عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کے اندازوں کے عین مطابق ہے۔

نئی امریکی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ امن معاہدے پر عملدرآمدسے قبل اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ طالبان امن کیلئے اپنے جنگ بندی وعدوں کو پورا کررہے ہیں یا نہیں کیونکہ سرکاری املاک پر حملوں اور اعلیٰ عہدیداروں کے قتل کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور افغان حکومت ان کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیتی ہے، تاہم اے ایف پی کے مطابق طالبان ترجمان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ دوسرا فریق بھی معاہدے کی پابندی کرے گا۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن کے بقول امریکہ کے قومی سلامتی کے نئے مشیر جیک سلیون نے اپنے افغان ہم منصب سے بات کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ امریکی انتظامیہ اس بات کا جائزہ لینا چاہتی ہے کہ طالبان دہشت گرد گروپوں کے ساتھ روابط ختم کرنے کا وعدہ پورا کر رہے ہیں یا نہیں تاکہ بامعنی بین الافغان مذاکرات ہوسکیں۔ جوبائیڈن انتظامیہ کو جو صورت حال درپیش ہے اسے سمجھنے کے لیے معاملے کے پس منظر کا نگاہ میں رہنا ضروری ہے۔

افغان سرزمین پر امریکی تاریخ کی اس طویل ترین جنگ کا آغاز دو عشرے پہلے نائن الیون واقعات کے بعد افغانستان پر بش انتظامیہ کی فوج کشی سے ہوا تھا جس میں امریکہ کے درجنوں نیٹو اتحادی بھی شریک تھے۔عام تاثر تھا کہ دنیا کی عظیم ترین فوجی طاقتوں کی جدیدترین جنگی ٹیکنالوجی، ہتھیاروں اور مہارت سے لیس افواج کے مقابلے میں خاک نشین افغانوں کی مزاحمت مہینوں تو کیا ہفتوں بھی جاری نہیں رہ سکے گی لیکن سوویت یونین کا زعم برتری خاک میں ملانے والے افغانوں نے اپنی سرزمین پر حملہ آور ہونے والی مغرب کی سامراجی طاقتوں کے خلاف اٹھارہ سال تک ناقابل شکست مزاحمت جاری رکھ کر دنیا کو حیران کردیا۔

بش اور اوباما دور میں امریکہ کی کامیابی کے غیرحقیقی دعوے کیے گئے جن کی تردیدخود ممتاز مغربی تجزیہ کاروں کی جانب سے ہوتی رہی۔

ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے دور صدارت کے ابتدائی دنوں میں فوجی طاقت کے بل پر افغان مزاحمت کاروں کو سبق سکھادینے کے دعوے کرتے تھے لیکن آخرکار انہوں نے امریکی افواج کو افغانستان سے سلامتی کے ساتھ واپس نکالنے کے لیے تحریک طالبان سے امن معاہدہ کرنے ہی میں عافیت جانی۔

اس معاہدے کے بعد امریکی افواج کی بڑی تعداد واپس جاچکی ہے اور اس وقت صرف ڈھائی ہزار امریکی فوجی افغانستان میں ہیں، تاہم معاہدے کے دوسرے حصے پر عمل درآمد اب تک لیت و لعل کا شکار ہے جس کے مطابق طالبان اور موجودہ افغان حکومت کو مل بیٹھ کر پرامن بات چیت کے ذریعے سے ملک کے لئے ایسے پائیدار نظام حکومت کی صورت گری کرنی ہے جو چار عشروں سے بیرونی جارحیت اور باہمی خانہ جنگی کا شکار افغان قوم کے لیے مستقل امن و استحکام کا ضامن ہو۔

کابل انتظامیہ مذاکرات کا سلسلہ باربار معطل ہوجانے کا ذمہ دار طالبان کی دہشت گرد کارروائیوں کو قرار دیتی ہے جبکہ طالبان اس کی قطعی تردید کرتے ہیں۔

اگر واقعی ایسا ہی ہے تو ان واقعات کے پیچھے ان طاقتوں کا ہونا یقینی ہے جو افغانستان میں پائیدارامن کے قیام کو اپنے مفادات کے منافی سمجھتی ہیں، لہٰذا جوبائیڈن انتظامیہ کو امن معاہدے پر نظر ثانی میں اس پہلو کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے اور اس کے تدارک کی مؤثر تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جبکہ تحریک طالبان اور اشرف غنی انتظامیہ دونوں کو افہام و تفہیم سے کام لیتے ہوئے عشروں سے جنگ کے شعلوں میں جھلستے افغانستان کیلئے ایک متفقہ اور قابل عمل نظام حکومت تشکیل دے کر پائیدار امن و ترقی کے دور کا آغاز کرنا چاہئے۔

اگرچہ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ کی یہ کوشش ہو گی کہ بین الافغان مذاکرات کامیابی سے ہم کنار ہوں، افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو سکے تاکہ مئی میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل مکمل ہو جائے۔

لیکن دوسری طرف بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کہتی ہیں کہ اس وقت افغانستان میں تشدد میں کمی نہیں ہو رہی، جبکہ ہدف بنا کر ہلاک کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ طالبان ابھی تک تشدد میں کمی پر تیار نہیں ہیں۔

تجزیہ کاروں کے بقول واشنگٹن کی کوشش ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ سال فروری میں ہونا والا معاہدہ برقرار رہے، لیکن یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب تمام اسٹیک ہولڈرز ذمہ داریاں پوری کریں۔

ایک طرف طالبان تشدد کم کرنے پر تیار نہیں ہیں، جبکہ وہ باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کرتے آرہے ہیں، جبکہ افغان حکومت طالبان سے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے جس میں تشدد میں کمی اور جامع جنگ بندی کا معاملہ بھی شامل ہے۔

اس صورتِ حال میں آئندہ کی امریکی انتظامیہ کو بر وقت اور فوری فیصلے کرنے ہوں گے، بصورت دیگر امریکہ طالبان معاہدہ اور بین الافغان مذاکرات مشکلات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

بن گویر

“بن گوئیر، خطرناک خیالات والا آدمی”؛ صیہونی حکومت کا حکمران کون ہے، دہشت گرد یا نسل پرست؟

پاک صحافت عربی زبان کے ایک اخبار نے صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے