بن سلمان

ایران کی جانب سے مذاکرات کی دعوت پر سعودی عرب خاموش کیوں؟

پاک صحافت اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے اور مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی دعوت پر سعودی عرب کی جانب سے کوئی رد عمل نظر نہیں آرہا ہے لیکن دیکھا جارہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت ایران کے اندر ہونے والے فسادات پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کررہی ہے۔ ایران کھل کر اس کی حمایت نہیں کر رہا لیکن سعودی عرب کے پیسوں سے چلنے والے ٹی وی چینلز نے شاید ایران میں بدامنی، تشدد اور فسادات کے معاملے کو اٹھانے اور اسے ہوا دینے کا عندیہ دیا ہے۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان عراق میں مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں لیکن سعودی عرب کا میڈیا اس پر بات کرنے کو تیار نظر نہیں آتا اور نہ ہی میڈیا دونوں ممالک کے درمیان ٹوٹے ہوئے سفارتی تعلقات کی بحالی کے حوالے سے کچھ بات چیت نظر آتی ہے۔ طرف

اس تناظر میں قطر کی پالیسی بالکل مختلف رہی۔ ایران کے خلاف نعرے لگانے کی کوشش کرنے والوں کو ورلڈ کپ کے میچ میں تماشائی کی حیثیت سے شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔

حال ہی میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی کا بیان آیا کہ اگر ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم پہلے دیکھیں گے کہ سعودی عرب عملی طور پر کیا اقدامات کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب تعلقات کی بہتری میں دلچسپی نہیں دکھا رہا۔ تاہم عراق کی حکومت نے مذاکرات کے چھٹے دور کی میزبانی کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت یہ توقع کر رہی ہے کہ ایران میں ہونے والے مظاہروں اور تشدد سے ایران کے اندر ایک مختلف صورتحال پیدا ہو جائے گی اور ایرانی قیادت دباؤ میں آ جائے گی۔ سعودی ولی عہد پہلے بھی دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ تشدد اور جنگ کو ایران کے اندر لے جانا چاہتے ہیں۔

تو اس صورت حال میں اگر ایران سعودی عرب کو مذاکرات کی دعوت دے رہا ہے تو کیا وہ سعودی عرب کو خبردار کرنا چاہتا ہے کہ آگ سے کھیلنا خطرناک ہے؟

سعودی عرب نے حال ہی میں امریکا کے ساتھ ایسی معلومات شیئر کی ہیں کہ ایران کی جانب سے سعودی عرب کے مفادات کے خلاف کوئی نیا حملہ ہوسکتا ہے۔

تو کیا ایران اس طرح سعودی عرب کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ اس کی طرف سے سعودی عرب کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ کیا سعودی عرب اس پر قائل ہو جائے گا یا پھر بھی سعودی عرب کو امید ہے کہ ایران کے حالات بدلیں گے، حکومت بدلے گی، پھر تہران کے ساتھ اپنے تعلقات کی تشکیل نو کے لیے پہل کی جائے گی۔

خالد جیوسی

صحافی فلسطینی نژاد ہیں۔

نوٹ: مضمون میں بیان کیے گئے خیالات صحافی کے اپنے ہیں، پاک صحافت کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی پڑھیں

مصری تجزیہ نگار

ایران جنگ نہیں چاہتا، اس نے ڈیٹرنس پیدا کیا۔ مصری تجزیہ کار

(پاک صحافت) ایک مصری تجزیہ نگار نے اسرائیلی حکومت کے خلاف ایران کی تعزیری کارروائی …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے