آسٹریا

آسٹریا نے لہرایا اسرائیلی پرچم، ظریف نے آسٹریا کا دورہ کیا منسوخ

تہران {پاک صحافت} آسٹریا کی حکومت کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے ویانا میں اسرائیلی پرچم لہرانے پر ایرانی وزیر خارجہ نے ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آسٹریائی ہم منصب سے ملاقات کے لیے طے شدہ دورہ منسوخ کردیا۔

آسٹریا کے وزیرخارجہ کے ترجمان نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف آسٹریا کی دورے میں الیگزینڈر شیلنبرگ سے ملاقات متوقع تھی لیکن انہوں نے دورہ منسوخ کردیا۔

ترجمان نے کہا کہ ‘ہم اس پر معذرت خواہ ہیں اور اس کو نوٹ کرلیا ہے لیکن ہمارے لیے واضح ہے کہ جب حماس 2 ہزار راکٹ اسرائیل میں شہری آبادی پر فائر کرے تو ہم خاموش نہیں رہیں گے’۔

حماس غزہ کی حکمران جماعت ہے اور حال ہی میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف راکٹوں سے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں بھی جاری ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ کو اس دورے میں 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے ویانا میں مذاکرات کرنے تھے جس کے تحت ایران پر پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی جبکہ ایران نے جوہری پروگرم روکنے پر اتفاق کیا تھا۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا تاہم اب جوبائیڈن نے معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کا فیصلہ کرلیا ہے۔

آسٹریا کی چانسلر سیباسٹین کرز کو اسرائیل کی زبردست حامی ہیں اور انہوں نے چانسلر کے دفاتر پر اسرائیل کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے اسرائیلی پرچم لہرانے کا حکم دیا تھا۔

ویانا میں ایرانی مذاکراتی وفد کی سربراہی کرنے والے سید عباس عراقچی نے آسٹریا کی حکومت کے اس اقدامات پر سخت تنقید کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے کہا کہ ‘ویانا عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) اور اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اب تک مذاکرا کا بہترین میزبان رہا ہے’۔

عباس عراقچی نے کہا کہ ‘ویانا میں سرکاری دفاتر پر قابض حکومت کے پرچم لہرائے جانے پر حیرانی ہوئی اور دکھ پہنچا ہے کیونکہ انہوں نے چند دنوں میں ہی بچوں سمیت معصوم شہریوں کو قتل کردیا ہے’۔

رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کیپُرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔

10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔

اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔

دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ غزہ سے تقریباً 1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عید الفطر کے روز بھی غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور دیگر مقامات پر مزید فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں پیر سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی جس میں 24 بچے بھی شامل ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال ‘وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے’۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

پرچم

صیہونی حکومت سے امریکیوں کی نفرت میں اضافہ/55% امریکی غزہ کے خلاف جنگ کی مخالفت کرتے ہیں

پاک صحافت گیلپ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کیے گئے ایک نئے سروے میں بتایا …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے