امریکا کا چین کے خلاف بڑا بیان، کہا ضرورت پڑنے پر ہر فورم میں چین کا مقابلہ کیا جائے گا

امریکا کا چین کے خلاف بڑا بیان، کہا ضرورت پڑنے پر ہر فورم میں چین کا مقابلہ کیا جائے گا

واشنگٹن (پاک صحافت)  امریکا نے چین کے خلاف بڑا بیان دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو ہر فورم میں چین کا مقابلہ کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے چین کو صدی کا سب سے بڑا جیوپولیٹکل امتحان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ضرورت پڑنے پر ہر فورم میں چین کا مقابلہ کرے گا۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے بلنکن نے کہا کہ جو بائیڈن انتظامیہ موسمیاتی تبدیلی اور کورونا جیسے دنیا کو درپیش دیگر معاملات میں عسکری کارروائی اور تعاون کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم اکیسویں صدی کے سب سے بڑے جیو پولیٹیکل امتحان کا انتظام کریں گے، جو چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ اور ایغور کے حقوق کی بات کریں گے اور اگر ایسا نہیں کیا تو چین مزید استثنیٰ کے ساتھ کام کرے گا۔

امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ چین واحد ملک ہے جس کے ساتھ معاشی، سفارتی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے حامل بین الاقوامی طاقتوں کو سنجیدہ امتحان کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات مسابقتی ہوں گے اور جب حالات مختلف ہوں گے تو پھر معاملات بہتر ہو سکتے ہیں اور ہم چین کو طاقت کی بنیاد پر مصروف رکھیں گے۔

بلنکن نے کہا کہ بائیڈن فوجی کارروائیوں سے گریز کریں گے حالانکہ گزشتہ ہفتے ہی جو بائیڈن نے شام میں ایرانی حمایت یافتہ باغیوں پر فضائی کارروائی کا حکم دیا تھا، تاہم انہوں نے عراق میں ہونے والے تازہ حملے کا حوالہ نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ہم فوجی کارروائی اپنی اقدار، قانون اور امریکا کے عوام کی منشا کے مطابق اس وقت کریں گے جب ہدف اور مقاصد واضح اور قابل حصول ہوں اور یہ ہم سفارت کاری کے ذریعے مشترکہ طور پر کریں گے۔

یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین پر سنکیانگ میں نسل کشی، ہانگ کانگ، تائیوان کے معاملات سمیت معاشی اور کورونا سے متعلق تنقید کرتے ہوئے مختلف پابندیاں عائد کردی تھیں۔

امریکا نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سنکیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ چین کینگو سمیت متعدد چینی حکام کے ویزا پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ اثاثے بھی منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

چین نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا لیکن ایغور مسلمانوں کو ووکیشل ایجوکیشنل سینٹرز بھیجنے کا اعتراف کیا گیا تھا جس کا مقصد انہیں مینڈیرن زبان اور کوئی ہنر سکھانا ہے، تاکہ خطے میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد جنم لینے والی علیحدگی پسندی کی لہر سے انہیں دور کیا جا سکے۔

وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا تھا کہ مجھے یہ بتانا ہوگا کہ سنکیانگ کا معاملہ خالصتاً چین کا داخلی معاملہ ہے اور اس میں امریکا کا مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

برٹش

برطانوی دعویٰ: ہم سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پوری کوشش کریں گے

پاک صحافت برطانوی نائب وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن حکومت غزہ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے