بھارتی حکومت نے کسانوں کے احتجاج کی رپورٹ کرنے پر متعدد صحافیوں کے خلاف بغاوت کے کیس درج کردیئے

بھارتی حکومت نے کسانوں کے احتجاج کی رپورٹ کرنے پر متعدد صحافیوں کے خلاف بغاوت کے کیس درج کردیئے

نئی دہلی (پاک صحافت) متعدد بھارتی صحافیوں کو کسانوں کے گزشتہ ہفتے کیے گئے احتجاج کے بارے میں رپورٹ اور آن لائن پوسٹس کرنے پر بغاوت کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ میڈیا تنظیموں کی جانب سے اس قانونی کارروائی پر تنقید کی جارہی ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 5 ریاستوں میں جن صحافیوں کے خلاف پولیس کیسز کا اندراج کیا گیا ہے، ان میں انڈیا ٹوڈے ٹی وی چینل کے معروف اینکر راج دیپ سردیسی اور کارواں نامی جریدے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود جوز بھی شامل ہیں۔

مذکورہ کیسز ان ریاستوں کے مقیم افراد نے دائر کیے جن میں 26 جنوری کو دہلی کے لال قلعے پر کسانوں کے احتجاج کے دوران ٹوئٹر پر غلط پوسٹس کر کے تشدد کو بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جس میں ایک یہ رپورٹ بھی شامل تھی کہ پولیس نے ایک شخص کو مار دیا ہے۔

یاد رہے کہ ہزاروں کسان 2 ماہ سے زائد عرصے سے بھارتی دارالحکومت کے مضافات میں دھرنا دے کر بیٹھے ہیں اور نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں جسے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کاشت کار کے بجائے نجی خریداروں کو فائدہ دے گا۔

وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا کہنا تھا کہ زرعی شعبے میں اصلاحات سے کسانوں کے لیے مواقع پیدا ہوں گے، تاہم 26 جنوری بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر احتجاج اس وقت پر تشدد ہوگیا تھا جب کسانوں نے تاریخی لال قلعے پر چڑھائی کردی تھی، اس دوران ایک شخص ہلاک جبکہ سیکڑوں مظاہرین زخمی ہوگئے تھے۔

اس وقت عینی شاہدین نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ احتجاج میں شامل ایک شخص ٹریکٹر الٹنے سے اس کے نیچے دب کر ہلاک ہوا تھا لیکن ایسی بھی اطلاعات تھیں کہ مذکورہ شخص کو گولی ماری گئی تھی تاہم آنسو گیس فائر کرنے والی پولیس نے گولی چلانے کی تردید کی تھی۔

دوسری جانب صحافیوں کے خلاف اترپردیش ریاست میں درج کروائی گئی ایک شکایت میں کہا گیا کہ ملزم نے آن لائن جھوٹی اور غلط معلومات پھیلا کر اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے مظاہرین کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔

ونود جوز نے کہا کہ انہوں نے وہاں موجود عینی شاہدین اور مرنے والے شخص کے رشتہ داروں سے سنا تھا کہ اس کو گولی ماری گئی تھی، اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ یہ آزادانہ رپورٹنگ پر حملہ ہے، حکومت چاہتی ہے کہ صرف اس کا مؤقف شائع کیا جائے۔

دوسری جانب اینکر راج دیپ سردیسی جو ایک وکیل بھی ہیں انہوں نے اس حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔

علاوہ ازیں ایڈیٹرز گلڈ انڈیا، پریس کلب انڈیا اور متعدد صحافتی گروہوں نے پولیس شکایت کی مذمت کی اور اسے میڈیا کو دبانے کی ایک دھمکی آمیز تدبیر قرار دیا۔

خیال رہے کہ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز کی سالانہ عالمی پریس فریڈم رینکنگ میں بھارت 2 درجے تنزلی کے بعد 142ویں نمبر پر آگیا تھا جو آزادی صحافت کی خلاف ورزیوں بشمول صحافیوں کے خلاف تشدد اور ہندو قوم پرست حکومت کے راستے پر چلنے کے لیے میڈیا پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

برٹش

برطانوی دعویٰ: ہم سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پوری کوشش کریں گے

پاک صحافت برطانوی نائب وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن حکومت غزہ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے