امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوبامہ نے امریکہ میں بڑہتی نسل پرستی کو خطرناک قرار دے دیا

امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوبامہ نے امریکہ میں بڑہتی نسل پرستی کو خطرناک قرار دے دیا

واشنگٹن (پاک صحافت) امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوبامہ نے امریکہ میں بڑہتی نسل پرستی کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نسل پرستی اور نسل پرستانہ الفاظ کا استعمال دراصل ایک انسان کی دوسرے انسان پر برتری کا احساس دلاتا ہے جو غلط ہے۔

اس ضمن میں پیدا ہونے والی معاشرتی خرابیوں کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح سے نسل پرستی کی بنیاد پر چوری، جنسی زیادتی، دھوکہ دہی اور قتل عام ہو جاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے اسکول میں اپنے ایک ہم جماعت کی ناک پہ مکہ مارا تھا جس سے وہ ٹوٹ گئی تھی، اس ہم جماعت کا قصور یہ تھا کہ اس نے نسل پرستانہ الفاظ کا استعمال کیا تھا۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے اسپوٹیفائی کی ایک قسط کے دوران پروس سپرنگسٹین کے ساتھ اپنے واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ اسکول میں تھے تو ان کا ایک ہم جماعت تھا جو ان کا دوست تھا اور اس کے ساتھ وہ باسکٹ بال وغیرہ کھیلتے تھے۔

امریکہ کے 44 ویں صدر بارک اوبامہ نے کہا کہ ایک مرتبہ ان کی اپنے اس ہم جماعت سے لڑائی ہوئی تو ان کے ساتھی نے انہیں ایک برے لفظ سے پکارا تو انہوں نے اس کی ناک پر مکہ مارا اور ساتھ ہی کہا کہ آئندہ یہ لفظ استمال نہ کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید وہ اس برے لفظ کے اتنے زیادہ معنی بھی نہیں جانتے تھے مگر انہیں برا لگا تھا۔

امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر بارک اوبامہ نے بتایا کہ ان کا دوست لیکن اتنا ضرور جانتا تھا کہ وہ اس لفظ کو استعمال کرکے مجھے تکلیف پہنچا سکتا ہے۔

سابق امریکی صدر نے نسل پرستانہ سوچ و فکر سے اظہار نفرت کرتے ہوئے کہا کہ نسل پرستانہ الفاظ کا استعمال دراصل ایک انسان کی دوسرے انسان پر برتری کا احساس دلاتا ہے جو غلط ہے۔

اس ضمن میں پیدا ہونے والی معاشرتی خرابیوں کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح سے نسل پرستی کی بنیاد پر چوری، جنسی زیادتی، دھوکہ دہی اور قتل عام ہو جاتا ہے۔

سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے نسل پرستانہ سوچ و فکر کے حوالے سے دور اقتدار میں رہتے ہوئے بھی متعدد مرتبہ گفتگو کی ہے اور اس کے بعد بھی انہوں نے اس پر بات کرنے سے اجتناب نہیں برتا ہے۔

بارک اوبامہ نے 2015 میں بھی اپنے ایک ایک انٹرویو کے دوران اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں ابھی تک نسل پرستانہ سوچ کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔

امریکہ میں گذشتہ سال جارج فلوئڈ نامی ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں بلیک لائیوز میٹر کی مہم کا آغاز ہوا۔

بلیک لائیوز میٹر کی مہم کے باوجود امریکہ میں دیگر سیاہ فام افراد کی ہلاکت کے واقعات پیش آئے ہیں جس سے ملک میں نسل پرستانہ سوچ و فکر ختم نہ ہونے پر ایک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

برٹش

برطانوی دعویٰ: ہم سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پوری کوشش کریں گے

پاک صحافت برطانوی نائب وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن حکومت غزہ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے