اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے: اہم رپورٹ

اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے: اہم رپورٹ

غزہ (پاک صحافت) سنہ 1948ء کی جنگ میں صہیونی غاصب مسلح عناصر نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا انہیں اندرون فلسطین کے علاقے قرار دیا جاتا ہے، ان علاقوں میں گذشتہ چند برسوں کے دوران مقامی عرب اور فلسطینی آبادی کے خلاف قتل وغارت گری، لوٹ مار اور دیگر سنگین جرائم کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ امر انتہائی تشویش کا باعث بن ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں کو دانستہ طور پر اور چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

مقامی فلسطینی تنظیموں کے رہ نمائوں، سماجی کارکنوں، صحافیوں اور نمائندہ افراد کو جان سے مارنے جیسے حربوں کا سامنا ہے۔ اسرائیلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ فلسطینیوں کو نشانہ بنائے جانے کے پیچھے منظم مافیا کا ہاتھ ہے۔

مگر ایسا کیوں‌ ہے کہ یہ مافیا صرف فلسطینی عرب آبادی کے خلاف کیوں سرگرم ہے؟ شہید ہونے والے فلسطینیوں کے لواحقین کی طرف سے ایسے جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی بھی کی گئی مگر پولیس انہیں پکڑنے اوران کے خلاف قانونی کارروائی کو دانستہ نظرانداز کر رہی ہے۔

مقامی سطح پر عرب آبادی اور انسانی حقوق کے حلقوں کی طرف سے یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ نسل  کشی کی اس مذموم کے پیچھے قاتل گینگ یا مافیا نہیں بلکہ اسرائیل کی سرکاری پالیسی اور منظم حکمت عملی کار فرما ہے جس کے تحت فلسطینی آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جنوری 2021ء کے دوران جرائم کے ایسے دو واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان واقعات میں دو اہم شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں قائم اسلامی تحریک کے رہنما سلیمان الاغباریہ جو جماعت میں مسجد اقصیٰ کے امور کے نگران ہیں کو سات جنوری کو مسلح افراد نے گولی مار کر شدید زخمی کردیا، اس کے بعد یافا شہر میں ایک مذہبی رہنما اور اسلامی تحریک کے عہدیدار الشیخ محمد ابو نجم کو 24 جنوری کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا۔

گذشتہ کئی سال سے جاری غیراعلانیہ نسل کشی کے دوران ایسا کوئی مہینا نہیں گذرتا جس میں ان علاقوں میں کسی فلسطینی کو گولیاں مار کر شہید کیے جانے کی خبر نہ آتی ہو، اسرائیلی حکام کی طرف سے ان واقعات اور جرائم پر دانستہ خاموشی برتی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کی دانستہ نسل کشی کے پیچھے دو اہم اسباب ہیں۔

ایک سبب تو اجرتی اور منظم مافیا ہے جسے اسرائیلی حکومت اور ریاستی اداروں کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ مدد حاصل ہے اور وہ اداروں کی آشیر باد سے فلسطینیوں پر حملے کرتے ہیں، دوسرا سبب یہودی آباد کاروں میں بانٹا گیا بے پناہ اسلحہ ہے جسے وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں عرب آبادی کی نسل کشی کو اسرائیل کی فلسطینی آبادی کے خلاف جاری مہم سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے ایک یا دو واقعات نہیں بلکہ یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔

اسرائیلی حکومت کی طرف سے اس پر آج تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اسرائیلی پولیس جرئم میں‌ ملوث عناصر کے خلاف کارروائی سے پہلو تہی کیوں ‌برت رہی ہے؟

جرائم کے واقعات کو نظر انداز کرنا اور مجرموں کی نشاندہی ہونے کے باجودانہیں آزاد چھوڑنا یہ ثابت کرتا ہے کہ فلسیطنیوں کی نسل کشی میں ملوث صہیونی قاتل گینگ کو پولیس اور دوسرے سیکیورٹی اداروں کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔

دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں میں پھیلے منشیات فروش گینگ اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا دیا مگر فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ بند نہیں‌ کیا جاسکا۔

سنہ 2014ء سے 2017ء تک کے اعدادو شمار کو دیکھا جائے تو یہودی آبادی کی نسبت فلسطینی عرب آبادی کےخلاف تشدد اور دیگر جرائم میں پانچ گنا زیادہ واقعات پیش آئے۔ فلسطین میں دوسری تحریک انتفاضہ کے بعد فلسطین کے اندرونی علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور ایک منظم مافیا فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہوگیا۔ اسرائیلی پولیس کی دانستہ لاپرواہی کے نتیجے میں قاتل گینگ اور مافیا کو مزید حوصلہ ملا۔

سنہ 2000ء کے بعد سنہ 1948ء کے مقبوضہ عرب علاقوں میں 7001 فلسطینیوں کو نسل کشی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ سنہ 2021ء میں ایک ماہ سے بھی کم وقت میں 6 فلسطینیوں‌کو بے دردی کے ساتھ شہید کیاگیا جب کہ بیت المقدس میں 4 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق قدرتی طور پر10 لاکھ افراد میں 10 افراد جرائم کا نشانہ بنتے ہیں مگر فلسطین کے سنہ 1948ء کے علاقوں میں یہ تناسب ایک ملین  میں 46 ہے۔

سال 2020ء کے دوران مقبوضہ عرب علاقوں میں 111 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا اور کسی ایک شہادت پربھی اسرائیلی پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی حالانکہ بیشتر واقعات میں قاتل سامنے موجود ہیں۔

سنہ 2019ء میں 94 فلسطینیوں ‌کو شہید کیا گیا اور پولیس نے صرف 39 کیسز کی رپورٹ درج کرائیں۔ 2018ء کو 76 فلسطینی شہید کیے گئے، 2017ء میں 72، 2016ء میں 64، 2015ء میں 58 فلسطینیوں ‌کو شہید کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کیپیٹل ہل کے علاقے کے قیام کے محض 14 سال بعد یعنی 1814 میں بھی وہاں مظاہرے ہوئے اور اس وقت برطانوی فوج نے وہاں پر بمباری و فائرنگ شروع کردی تھی۔

مذکورہ واقعے کے بعد کیپیٹل ہل میں 1915 کو بھی مظاہرے اور پرتشدد واقعات ہوئے جس کے بعد 1954 میں بھی پیورٹو ریکو کے آزادی پسند رہنماؤں و کارکنان نے کیپیٹل ہل میں مظاہرے کیے تھے اور اس دوران خونریزی بھی ہوئی تھی۔

کیپیٹل ہل کے علاقے میں 1983 اور 1998 کے بعد 2013 میں بھی مظاہرے اور پرتشدد واقعات ہوئے جب کہ وہاں 220 سال کی تاریخ میں دیگر بھی چھوٹے، موٹے واقعات رپورٹ ہوئے، تاہم 6 اور 7 جنوری کو شروع ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے مظاہرے اور پر تشدد واقعات کو کیپیٹل ہل کی تاریخ کے بدترین مظاہرے قرار دیا جا رہا ہے، کیوں کہ مذکورہ مظاہروں میں بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں

احتجاج

امریکہ میں طلباء کے مظاہرے ویتنام جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی یاد تازہ کر رہے ہیں

پاک صحافت عربی زبان کے اخبار رائے الیوم نے لکھا ہے: امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے