فیس بک اور انسٹاگرام نے میانمار میں فوجی بغاوت کے پیش نظر بڑا قدم اٹھا لیا

فیس بک اور انسٹاگرام نے میانمار میں فوجی بغاوت کے پیش نظر بڑا قدم اٹھا لیا

واشنگٹن (پاک صحافت) فیس بک اور انسٹاگرام نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اپنے پلیٹ فارمز پر میانمار کی فوج پر غیر معینہ مدت تک پابندی عائد کردی ہے، اسی طرح فوج کے زیرتحت سرکاری اور میڈیا اداروں کو بھی فیس بک اور انسٹاگرام پر خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔

یہ اقدام میانمار میں فروری کے شروع میں فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے پر کیا گیا ہے اور فیس بک کے مطابق فوج سے منسلک کمرشل اداروں کے اشتہارات پر بھی پابندی عائد ہوگی۔

فیس بک کے ایشیا پیسیفک کے پالیسی ڈائریکٹر رافیل فرینکل نے ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ یکم فروری کی فوجی بغاوت اور تشدد کے بعد اس پابندی کی ضرورت تھی، ہمارا ماننا ہے کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر میانمار کی فوج کی موجودگی کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔

انہوں نے پابندی کی متعدد وجوہات کا ذکر بھی کیا، جسس میں میانمار کی فوج کی انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کی تاریخ بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی خطرہ ہے کہ مستقبل میں فوج کی جانب سے تشدد کو فروغ دیا جاسکتا ہے جبکہ فیس بک اور انسٹاگرام کے اصولوں کی مسلسل خلاف ورزی بھی اس فیصلے کی وجہ ثابت ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے بعد ان امکانات میں اضافہ ہوا کہ آن لائن دھمکیاں آف لائن نقصان کا باعث بن جائیں۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کی صبح جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

واضح رہے کہ 2 فروری کو فیس بک نے میانمار کی فون کے اقدامات کی حمایت کرنے والے ایک ٹی وی اسٹیشن سے متعلق اکاؤنٹ کو بین کردیا تھا۔

اس وقت فیس بک کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ کمپنی کی جانب سے میانمار کے سیاسی حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے جبکہ گمراہ کن تفصیلات اور مواد کی روک تھام کی جارہی ہے تاکہ تناؤ مزید بڑھ نہ سکے۔

خیال رہے کہ 28 اگست 2018 کو فیس بک نے میانمار میں نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات پھیلانے والے 18 اکاؤنٹس، 52 پیجز اور ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ کو غیرفعال کردیا تھا، ان اکاؤنٹس اور پیجز کو ایک کروڑ 20 لاکھ افراد فالو کررہے تھے۔

فیس بک انتظامیہ نے میانمار کے اس وقت کے آرمی چیف من اونگ ہلینگ سمیت اعلیٰ فوجی حکام کے اکاؤنٹ بھی بند کردیے تھے۔

اس موقع پر کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت پر مبنی مواد پھیلانے پر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

برٹش

برطانوی دعویٰ: ہم سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پوری کوشش کریں گے

پاک صحافت برطانوی نائب وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن حکومت غزہ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے