امریکہ کے بعد اب برطانیہ اور کینیڈا نے بھی میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف بڑا قدم اٹھا لیا

امریکہ کے بعد اب برطانیہ اور کینیڈا نے بھی میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف بڑا قدم اٹھا لیا

لندن (پاک صحافت)امریکہ کے بعد اب برطانیہ اور کینیڈا نے بھی میانمار میں حکومت کا تختہ الٹنے پر بڑا قدم اٹھاتے ہوئے میانمار کے حکمران جرنیلوں پر مختلف پابندیاں عائد کردی ہیں۔

غیرملکی خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جاپان نے امریکا، بھارت اور آسٹریلیا سے اتفاق کرتے ہوئے میانمار میں جمہوریت کو جلد بحال کرنے کا مطالبہ کیا، مغربی ممالک نے فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کی مذمت کی۔

انہوں نے معزول رہنما آنگ سان سوچی سمیت دیگر رہنماؤں کی نظربندی کی بھی مذمت کی، دوسری جانب جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی سڑکوں پر بھی روزانہ بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جارہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے امریکا کی جانب سے عائد پابندیوں کے بعد اب برطانیہ اور کینیڈا نے اقدامات کا اعلان کیا، برطانیہ نے کہا کہ وہ تین جرنیلوں پر اثاثے منجمد کرنے اور سفری پابندیاں عائد کرے گا جبکہ کینیڈا نے کہا کہ وہ 9 فوجی عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرے گا۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ ہم اپنے بین الاقوامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر میانمار کی فوج کو انسانی حقوق کی پامالیوں کا ازالہ اور عوام کے لیے انصاف کے حصول کا تقاضہ کریں گے۔

برطانیہ میں جنتا کے رہنما من آنگ ھلاینگ پر پہلے ہی پابندیاں عائد تھیں جنہوں نے مسلم روہنگیا اور دیگر نسلی اقلیتی گروہوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام عائد کیا تھا، میانمار کی حکومت نے نئی پابندیوں پر فوری رد عمل ظاہر نہیں کیا، فوج کے ترجمان نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ پابندیوں کی توقع کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ میانمار میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ تھامس اینڈریوز نے کہا تھا کہ فوجی میانمار کے عوام کے خلاف بڑے جرائم کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

میانمار کے فوجی جرنیلوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد 75سالہ آنگ سان سوچی سمیت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

جرنیلوں نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے اس کی وجہ پچھلے سال نومبر میں ہوئے انتخابات میں دھاندلی کو قرار دیا جہاں مذکورہ انتخابات میں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے کلین سوئپ فتح حاصل کی تھی۔

میانمار میں فوج نے کئی دہائیوں تک حکومت کی لیکن ایک دہائی قبل عوامی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کا موقع دیا۔

فوجی حکومت میں زیادہ عرصے تک نظربند رہنے والی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی کو ان کی کاوشوں پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

برٹش

برطانوی دعویٰ: ہم سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر عملدرآمد کے لیے پوری کوشش کریں گے

پاک صحافت برطانوی نائب وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ لندن حکومت غزہ میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے