فوجی فائرنگ

میانمار میں مقتولین کی آخری رسومات کے دوران فوج کی فائرنگ

ینگون {پاک صحافت} میانمار میں فورسز کی فائرنگ سے ایک دن میں ہلاک 114 افراد کی آخری رسومات کے لیے جمع ہونے والے افراد پر بھی فوج نے فائرنگ کردی۔

یکم فروری کو ہوئی فوجی بغاوت کے خلاف میانمار میں جاری دو ماہ سے جاری احتجاج میں 27 مارچ کا دن خونریز ثابت ہوا جب سیکیورٹی فورسز کی مظاہرین پر فائرنگ سے خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 114 افراد ہلاک ہوئے۔

میانمار کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی گئی اس فائرنگ پر دنیا کے 12 ملکوں کے فوجی سربراہان نے مذمت کی تھی۔

ہفتہ کو گولی سے ہلاک ہونے والی 20 سالہ طالبہ تھئی مونگ کی خدمت پر مامور خاتون آئے نے کہا کہ ہم تھئی مانگ کے لیے انقلابی گانا گارہے تھے کہ سیکیورٹی فورسز نے آکر ہمیں گولی مار دی، جیسے ہی انہوں نے فائرنگ کی مجھ سمیت تمام لوگ بھاگ گئے۔

عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کے روز دیگر مقامات پر دو الگ واقعات میں مظاہرین پر فائرنگ سے دو افراد ہلاک ہوگئے۔

میانمار نیوز کی خبر کے مطابق دارالحکومت نپیٹا کے قریب مظاہرین کے ایک گروپ پر راتوں رات فوجیوں کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا۔

اتوار کے روز مختلف مقامات پر آخری رسومات کی ادائیگی کے باوجود ینگون یا ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں میانمار کی مسلح افواج کے خلاف کسی بھی قسم کے بڑے پیمانے پر احتجاج کی رپورٹس موصول نہیں ہوئیں۔

خبروں اور عینی شاہدین کے مطابق ہفتے کے روز ہلاک ہونے والوں میں 10 سے 14 سال کی عمر کے کم از کم 6 بچے شامل ہیں۔

اس خونریزی کی مغربی دنیا نے بھی شدید مذمت کی اور میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی نے کہا کہ فوج ‘اجتماعی قتل عام’ کر رہی ہے اور عالمی طاقتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ جنتا کو اقتدار سے الگ تھلگ اور اسلحے تک رسائی روکنے کے لیے اقدامات کریں۔

کچھ مغربی ممالک کی تنقید اور غیرملکی پابندیاں بھی فوجی رہنماؤں کو اقتدار سے باز رکھنے میں ناکام رہی ہیں جہاں جنتا کی جانب سے اقتدار سنبھالنے اور منتخب رہنما آنگ سان سوچی کو حراست میں لیے جانے کے بعد سے ملک بھر میں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں۔

مرکزی احتجاجی گروپوں میں سے ایک نیشنلسٹ کی جنرل اسٹرائیک کمیٹی نے فیس بُک پر پیغام میں کہا کہ ہم اپنے ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس انقلاب کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ہمیں لازما اس انقلاب کو جیتنا ہے۔

فوج کی جانب سے بغاوت کے بعد ہفتے کو فوج اور نسلی مسلح گروہوں کے مابین ہفتے کو شدید لڑائی ہوئی۔

اتوار کے روز کیرین نیشنل کے یونین دھڑے کی جانب سے کہا گیا کہ تھائی سرحد کے قریب فوج کی ایک چوکی پر قبضہ کر لیا گیا ہے جس میں 10 افراد مارے گئے جبکہ فوجی طیاروں نے کیرن اقلیت سے تعلق رکھنے والے ایک مسلح گروپ کے زیر انتظام گاؤں پر چھاپے میں کم از کم تین افراد کو ہلاک کردیا تھا۔

جب جنتا کے ترجمان سے ان ہلاکتوں یا لڑائی جھگڑے کے بارے میں رائے طلب کی گئی تو انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

سینئر جنرل اور جنتا کے رہنما من آنگ ہلینگ نے مسلح افواج کی پریڈ کے دن کے موقع پر کہا تھا کہ فوج عوام کی حفاظت کرے گی اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرے گی۔

میانمار میں فائرنگ سے مرنے والے 114 افراد میں سے 40 کا تعلق منڈالے اور 27 کا ینگون سے تھا اور ہفتے کے واقعے کے بعد بغاوت کے بعد سے اب تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی مجموعی تعداد 440 سے تجاوز کر گئی ہے۔

امریکا، برطانیہ اور یوروپی یونین سمیت تمام عالمی طاقتوں نے اس تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔

اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی ٹام اینڈریوز نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کارروائی کرے، اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے توسط سے نہیں تو بین الاقوامی ہنگامی اجلاس کے ذریعے یہ کارروائی عمل میں لائی جائے اور جنتا کو تیل اور گیس کی آمدن جیسی مالی اعانت سمیت اسلحہ تک رسائی کو روکنا چاہیے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ مذمت یا اظہار تشویش جیسے الفاظ میانمار کے عوام کے لیے کھوکھلے دعوے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ فوجی نے وہاں بڑے پیمانے پر قتل کا ارتکاب کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے نسل کشی کی روک تھام سے متعلق خصوصی مشیر ایلس وائیرمو ندریٹو اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے ان ہلاکتوں کو “فوج اور پولیس کی شرمناک، بزدلانہ اور سفاکانہ حرکت قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں

پیگاسس

اسرائیلی پیگاسس سافٹ ویئر کیساتھ پولش حکومت کی وسیع پیمانے پر جاسوسی

(پاک صحافت) پولش پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ 2017 اور 2023 کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے