بائیڈن

پیوٹن کو امریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت کی کوششوں کی قیمت چکانی پڑے گی، جوبائیڈن

واشنگٹن {پاک صحافت} امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں امریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت کی کوششوں کی قیمت چکانی پڑے گی۔

خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکی نیوز چینل ‘اے بی سی’ کو انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا کہ روسی صدر پیوٹن کو امریکی صدارتی انتخاب 2020 ٹرمپ کے حق میں کرنے کی کوششوں کی ہدایات دینے پر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ وقت بہت جلد آئے گا۔

امریکی صدر نے کہا کہ ‘انہیں قیمت چکانی پڑے گی اور بہت جلد سب دیکھیں گے’۔

قبل ازیں امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ماسکو کی جانب سے امریکی صدارتی انتخاب میں مداخلت کی کوششوں کے پیچھے پیوٹن تھے جبکہ روس ان الزامات کوبے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتا رہا ہے۔

انٹرویو کے دوران بائیڈن نے کہا کہ باہمی دلچسپی کے ایسے پہلو بھی ہیں جہاں ہمیں مل کر کام کرنا ہے، جس میں جوہری معاہدے کی تجدید کرنی ہے اور دونوں رہنما اس حوالے سے تاریخ سے بھی واقف ہیں۔

بائیڈن نے کہا کہ میں انہیں بہتر جانتا ہوں، غیر ملکی قیادت سے معاملات نمٹانے کے لیے میرے تجربے کے مطابق بہت اہم چیز دوسرے فریق کے بارے میں معلومات رکھنا ہے۔

پیوٹن کا ذکر کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ روسی صدر میں رحم نہیں ہے۔

بائیڈن سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ پیوٹن کو قاتل سمجھتے ہیں تو ان کا واضح جواب تھا کہ ‘میں ایسا ہی سمجھتا ہوں’۔

یاد رہے کہ ستمبر 2020 میں امریکی محکمہ خزانہ کے بیرونی اثاثہ جات کنٹرول (او ایف اے سی) دفتر نے امریکی انتخابات میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے روس سے تعلق رکھنے والے 4 افراد پر پابندی عائد کردی تھی۔

محکمہ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘او ایف اے سی نے ایندرل درکیچ پر امریکی صدارتی انتخاب 2020 میں مداخلت کی کوششوں پر ایگزیکٹو آرڈر 13848 کے تحت پابندی عائد کردی ہے’۔

الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ‘درکیچ کے روسی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور وہ روس کی ہدایات پر امریکی ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہونے والی مہم کا حصہ ہیں’۔

امریکا کے 2016 کے انتخاب میں بھی روس کی مداخلت کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ روس نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

گزشتہ صدارتی انتخاب کے بارے میں ایف بی آئی کے سابق سربراہ رابرٹ میولر کی جامع رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ روس نے ٹرمپ کی حمایت میں مداخلت کی تھی، تاہم یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کی مہم ماسکو سے ہی چلائی گئی تھی۔

امریکی صدر پر بعد ازاں روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں سے لڑنے والے یوکرین کے لیے فوجی امداد روکنے پر مواخذے کی کارروائی بھی کی گئی تھی۔

تاہم ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے زیر اثر سینیٹ نے 16 فروری کو انہیں بری کردیا تھا جس کے بعد امریکی صدر نے ان کے خلاف شواہد فراہم کرنے والے افسران کو برطرف کردیا تھا۔

‘افغانستان سے یکم مئی تک فوجی انخلا مشکل ہے’

اے بی سی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے حوالے سے ایک سوال پر جو بائیڈن نے کہا کہ ان کی انتظامیہ طالبان کے ساتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے، جس کے تحت معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی صورت میں یکم مئی تک مکمل فوجی انخلا ہوگا۔

بائیڈن نے کہا کہ میں اس حوالے سے فیصلے پر کام کر رہا ہوں کہ کب فوج کو واپس بلانا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سابق صدر نے بہتر انداز میں معاہدہ نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں اور یہ عمل ابھی جاری ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ تمام فوجیوں کا یکم مئی تک افغانستان چھوڑنا مشکل فیصلہ ہوگا، ایسا ہوسکتا ہے لیکن بہت مشکل ہے۔

بائیڈن نے صدارتی مہم کے دوران سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں بڑی سزا دینے کے وعدے پر پوچھے سوال پر کہا کہ میں نے وہ رپورٹ جاری کی اور سعودی فرمانروا کو واضح کیا کہ چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

پیگاسس

اسرائیلی پیگاسس سافٹ ویئر کیساتھ پولش حکومت کی وسیع پیمانے پر جاسوسی

(پاک صحافت) پولش پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ 2017 اور 2023 کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے