پاک صحافت بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحقہ گڑگاؤں کے تقریباً 100 گاؤں کے ہندوؤں نے ایک مہاپنچایت کا انعقاد کیا جس میں مسلمانوں کے معاشی اور سماجی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔ مہاپنچایت نے مسلمانوں کو کرائے پر مکان یا دکانیں دینے سے منع کیا ہے۔
ہریانہ کے نوح علاقے میں گزشتہ ہفتے فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جس کے بعد پورے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ فسادات میں دو ہوم گارڈز سمیت چھ افراد کی جانیں گئیں۔
نوح میں جھڑپوں کے دوران گڑگاؤں کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا اور وہاں کے امام کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
فسادات کے بعد ہونے والی مہاپنچایت میں تقریباً ڈیڑھ ہزار لوگوں نے شرکت کی، حالانکہ دفعہ 144 نافذ تھی، لیکن مہاپنچایت پھر بھی ہوئی اور کہا گیا کہ مسلمانوں کا بائیکاٹ کریں۔
مہاپنچایت کی سیکورٹی کے لیے پولیس نے فورس تعینات کی تھی جبکہ پنچایت کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
مہاپنچائیت میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ایف آئی آر سے قتل کے ملزم لڑکوں کے نام نکالے جائیں۔ ایف آئی آر میں چھ لڑکوں کے نام درج ہیں۔
دوسری جانب فسادات کے بعد ہریانہ کی بی جے پی حکومت علاقے میں مسلسل بلڈوزر چلا رہی ہے اور مبینہ طور پر غیر قانونی مکانات اور دکانوں کو گرا رہی ہے۔
مہاپنچایت نے پولیس کو یہ بھی چیلنج کیا ہے کہ اگر ایف آئی آر میں ملزم لڑکوں کو پکڑنے کی کوشش کی گئی تو اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔
مہاپنچایت نے 101 ارکان کی ایک کمیٹی بنائی ہے، جو ہریانہ کے پولس کمشنر کو مہاپنچایت کے فیصلوں سے آگاہ کرے گی۔
بھارت میں میڈیا کا ایک حصہ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کو نوح میں ہونے والے فسادات کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔
کچھ رہنما اور تبصرہ نگار مرکز اور کچھ ریاستوں میں برسراقتدار پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی پر انتخابات سے قبل جان بوجھ کر ایسا ماحول پیدا کرنے کا الزام لگا رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ اسی طرح کے فسادات ہوتے رہیں گے۔