افغانی کرنسی

افغان قومی کرنسی کی قدر میں غیر معمولی کمی

کابل (پاک صحافت) افغان میڈیا ڈالر کے مقابلے افغان قومی کرنسی (افغانی) کی قدر میں کمی سے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے اور درآمدی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ایک افغان ماہر اقتصادیات نبی اقبال نے امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر کو منجمد کرنے، معیشت میں ساختی مسائل، برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن اور نقد رقم کی کمی کو ملک کی قومی کرنسی کی قدر میں کمی کی وجوہات قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی افغان حکومت کے خاتمے سے قبل بیرونی ممالک سے افغانستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے میں سالانہ 6 ارب ڈالر سے 7 ارب ڈالر زیادہ تھیں جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے قومی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ماہر اقتصادیات کا خیال ہے کہ افغان عوام کے بینکوں پر عدم اعتماد کی وجہ سے، افغانستان میں اب صرف 10 فیصد لوگ ہی مالیاتی لین دین کے لیے بینکنگ سسٹم استعمال کرتے ہیں، اور باقی 90 فیصد اپنے تبادلے یا مالیاتی ذخائر کے لیے غیر رسمی طریقے استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے افغان کرنسی کی قدر میں کمی افغانستان کے اندر مہنگائی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی، کیونکہ افغان منڈی کا دارومدار بیرونی ممالک سے درآمدات پر ہے اور افغانستان میں درآمد کیا جانے والا تمام سامان غیر ملکی کرنسیوں میں خریدا جاتا ہے، بشمول ڈالر۔

نبی اقبال نے کہا کہ طالبان اور سنٹرل بینک آف افغانستان جو کہ اب اس گروپ کے ہاتھ میں ہے، کے پاس افغان مارکیٹ اور افغان کرنسی کی قدر کو کنٹرول کرنے کے اوزار اور صلاحیت نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں زیادہ غربت اور قحط افغان معاشرے کا منتظر ہے۔

سابق افغان نائب صدر نے بھی ٹویٹ کیا کہ پاکستان میں افغان کرنسی کی غیر قانونی چھپائی نے ملک کی قومی کرنسی کی قدر میں کمی کر دی ہے۔

امر اللہ صالح نے مزید کہا کہ اطلاعات ہیں کہ یہ رقم پاکستان میں چھاپ کر طالبان کو دی گئی۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے، جنہوں نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا، کہا کہ تنظیم کو قحط اور غذائی قلت کے خطرے سے دوچار 22 ملین افغانوں کو خوراک فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر ماہانہ 230 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ اس سال کے آخر تک افغانستان کی 97 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہو جائے گی۔

رپورٹ میں مزید پیش گوئی کی گئی ہے کہ اس سال کے آخر تک پانچ سال سے کم عمر کے 3.2 ملین بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں

پیگاسس

اسرائیلی پیگاسس سافٹ ویئر کیساتھ پولش حکومت کی وسیع پیمانے پر جاسوسی

(پاک صحافت) پولش پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا ہے کہ 2017 اور 2023 کے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے