بھارت میں بڑھتا امریکی سامراج جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیئے خطرناک کھیل

بھارت میں بڑھتا امریکی سامراج جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیئے خطرناک کھیل

(پاک صحافت) منموہن سنگھ کے دور حکومت 2000 تا 2014 سے بھارت امریکی سامراج کا علاقائی آلہ کار بننے پر راضی ہوگیا اور نریندر مودی کی حکومت نے امریکی سامراجی حکمت عملی میں بھارت کو مکمل طور پر ضم کر دیا ہے۔

یہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے، امریکی سامراج کی چین گھیرائو پالیسی کی تنفیذ میں بھارت ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

مئی 2020 میں چینی بھارتی سرحدی تصادم میں امریکا نے مکمل طور پر بھارت کی حمایت کی، پومپیو نے بھارت کو امریکی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون اسی موقع پر کہا، جنگ کے بعد بھارتی سرکاری اداروں نے اپنے چینی خریداری کے معاہدات منسوخ کر دیے اور ساٹھ چینی Appsپر پابندی عاید کر دی۔

جولائی 2020 میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے تجویز پیش کی کہ بھارت، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کو ایسے جمہوری اتحاد (D-10) میں شامل کیا جائے جو چین کا مقابلہ کرے۔

اسی سال بھارت نے امریکا، یورپی یونین اور آسٹریلیا کے ساتھ ڈبلیو ایچ او میں چین پر عالمی تحقیق کے ذریعہ کووڈ 19 کو پھیلانے کی ذمے داری عاید کرنے کا ایک مطالبہ پیش کیا۔ بھارت میں چینی سرمایہ کاری کے لیے منظوری کی شرط عاید کی اور 2020 کے دوران تقریباً ایک ہزار امریکی ملٹی نیشنلز سے رابطہ قائم کیا کہ وہ اپنا سرمایہ چین سے بھارت منتقل کریں اور اس کے لیے لاکھوں ایکڑ اراضی مفت مختص کر دی۔

حالانکہ یہ زمین غریب کسانوں سے چھینی جائے گی اور بھارت میں جاری کسانوں کی مزاحمت کو اس کا شعور ہے، ان تمام پالیسیوں کو امریکی سامراج کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے مطابق معتبر حلیفوں کا ایک نیا خوشحال اتحاد قائم کیا جا رہا ہے جس میں ملٹی نیشنل اور این جی اوز شامل ہوں گی اور جس میں بھارت اور جنوبی کوریا امریکا کا ساتھ دیں گے اور جس میں دیگر مشرقی جنوبی ایشیائی ممالک کو ساتھ ملانے کی جدوجہد کی جائے گی۔

2020 ہی میں بھارت نے دو سو سے زائد چینی برآمدات پر لاگو محصولات میں اضافہ کیا اور کئی دیگر اشیا پر غیر محصولیاتی پابندیاں سخت کر دیں۔

امریکی سامراجی خوشحالی اتحاد کے منصوبہ کو بھارتی نجی اور سرکاری سرمایہ دار کمپنیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور وہ امید کرتی ہیں کہ اس کے ذریعہ وہ امریکی ملٹی نیشنلز سے مشترکہ سرمایہ کاری کو فروغ دیں گی۔

اس ضمن میں امبانی ریلائنس گروپ اور بھارتی ہیوی الیکٹریکلز نے خاص کامیابی حاصل کی ہے، مودی کی خودکفالت کی پالیسی عملاً بھارتی معیشت کو امریکی سامراجی سرمایہ کاروں کے قبضہ کا ذریعہ بنا رہی ہے۔

حال میں Qualian اور فیس بک اور گوگل وغیرہ سب نے بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، خلیجی حکومتی فنڈز بھی امریکی تابعداری میں اس سرمایہ کاری میں شریک ہو رہے ہیں، ان امریکی سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نتیجے میں بھارتی اطلاعاتی نظام پر سامراجی تسلط تقریباً سو فی صد ہوگیا ہے اور بھارت امریکی سامراجی مخبری اور تخریب کاری کا کلیدی ستون بن گیا ہے۔

عملاً مودی بھارتی خود مختاری کا سودا کر رہا ہے اور کیوں نہ ہو 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو فیس بک بھرپور اعانت فراہم کی تھی، مودی بھارت کا غدار ہے اور سامراج کا آلہ کار، سامراج کی اعانت کے ذریعہ اس نے بھارتی ماس بیس پر تسلط حاصل کر کے بی جے پی کو ایک وطن دشمن قوت بنا دیا ہے۔

بھارت وطن دشمنوں کے اس ٹولے کی سیاسی برتری کی نہایت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے، جمہوری عمل کے ذریعہ بھارت پر سامراج نے قبضہ کر لیا ہے اور اس قبضہ کے نتیجہ میں کروڑوں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، لاکھوں وبا کا شکار ہورہے ہیں اور بھارتی دولت پر سامراجی سرمایہ قابض ہوتا جا رہا ہے۔

امریکی سامراج علاقائی فوجی حکمت عملی کا ایک اہم ہدف بھارتی علاقائی جارحیت میں اضافہ ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشت گردی اسی بڑھتی ہوئی جارحیت کا ایک حصہ ہے، آج بھارت کی غدار حکومت اپنے فوجی تسلط کو جنوب بحرالکاہل تک وسیع کرنے کے منصوبہ امراجی گٹھ جوڑ کو فروغ دے کر بنا رہی ہے، وہ خود ایک علاقائی سامراجی نظام کا سرخیل بننے کے خواب دیکھ رہی ہے اور اپنے عسکری تسلط کو عدن سے ملاکا تک پھیلانا چاہتی ہے۔

اس دیوانے کے خواب کو امریکی سامراج حوصلہ افزائی کر رہا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ چین کے خلاف امریکا کی جنگ بھارتی لڑیں اور لاکھوں بھارتی لاشوں کی قربانی دے کر اس علاقہ پر امریکی سامراج اپنا تسلط مستحکم کرے۔

آج امریکی یو ایس پیسفک کمانڈ کا نام بدل کر یو ایس انڈو پیسفک کمانڈ رکھ دیا گیا ہے، امریکی بھارت میں اپنے فوجی اڈے اور بھارتی فوجی تنصیبات پر تسلط کی باقاعدہ منصوبہ بندی شروع کر چکے ہیں۔، وہ ایشیائی ناٹو کے قیام کی باتیں کر رہے ہیں۔

2016 میں بھارت امریکا نے لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ پر دستخط کیے جو بھارتی فوجی تنصیبات کی امریکی استعمال کی منظوری دیتا ہے۔

2020 میں آسٹریلیا کو بھی یہ سہولت فراہم کرنے کا معاہدہ کیا گیا، دیگر معاہدوں کے تحت امریکا اور بھارتی مواصلاتی نظام کو integrate کرنے، امریکی فوجی ٹیکنالوجی کی بھارت ترسیل اور تربیت کی فراہمی کے وعدے بھی کیے گئے ہیں۔

2013 سے 2016 تک بھارت کے امریکی فوجی درآمدات پانچ سو فی صد بڑھے۔ 2014 سے آج تک بھارت کے ساتھ امریکی فوجی مشقیں ہر غیر ناٹو ملک سے زیادہ کر رہی ہے۔

2019 میں آندھرا پردیش کے ساحلوں پر بھارتی امریکی بحری، بری اور فضائی افواج کی پہلی بار متحدہ مشقیں منعقد کی گئیں، آج امریکی اور بھارتی بحریہ جنوب بحرالکاہل میں چینی آبدوزوں کی مشترکہ مخبری کرتی ہیں۔ امریکی سامراج کی نگاہ میں بھارت عملاً ناٹو کا ایک رکن بن گیا ہے۔

بھارتی بحریہ نے حال میں امریکی بحریہ کے ساتھ چینی آبی سرحدوں میں دراندازی کی اور مالابار مشقوں میں بھارت، جاپان، آسٹریلیا اور امریکا نے حصہ لیا اور بھارت نے انڈونیشیا کی سابونگ بندرگاہ کی مینجمنٹ سنبھال لی ہے، یہ تمام کارروائیاں چین کی بحرالکاہل میں ناکہ بندی کے منصوبہ کا حصہ ہیں۔

2019 میں بھارت نے چہار فریقی تحفظاتی مکالمہ کی تنظیم کو دوبارہ فعال کیا جس میں امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ شریک ہے۔ جنوری 2020 میں بھارت اور امریکا کے وزارت دفاع اور خارجہ کی ایسی ہی نشست ہوئی جیسی امریکا اپنے ناٹو کے حلیفوں کے ساتھ کرتا ہے اور جس کو صحافتی زبان میں میٹنگ ٹو پلس ٹو کہا جاتا ہے۔

ظاہر ہے کہ بحرالکاہل کے علاقہ میں بھارت کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ امریکی سامراجی جارحیت کی تائید کر کے اپنے کسی قومی مفاد کا تحفظ نہیں کر رہا۔ امریکی سامراج بھارت کو چین کے خلاف صف آرا کر کے اس سے اسی نوعیت کی جانی اور مالی قربانیاں لینا چاہتا ہے جیسی وہ عراق، افغانستان اور کولمبیا کی پٹھو حکومتوں سے لیتا ہے۔ امریکی سامراجی بھارت کو ایک عظیم طاقت بننے کے خواب دکھا رہا ہے اور انڈو پیسفک منصوبہ سازی امریکی سامراج نے بھارت کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے وضع کی ہے۔

امریکی سامراج ہی بھارت کی نیوکلیئر صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے کوشاں ہے وہ بھارت کو بین البراعظمی میزائل تیار کر رہا ہے کیونکہ بقول امریکی وار کالج کے ایک تجزیہ کے اس کے بغیر بھارت کے جنوب مشرقی حلیف اس کو چین سے موثر مقابلہ کرنے والی قوت تسلیم نہ کریں گے۔

امریکی سامراج چین، بھارت تصادم کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ مئی 2020 کے تصادم کو جاری رکھنے میں امریکی سامراج بھرپور دلچسپی رکھتا ہے، وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا کیونکہ اس جارحیت کو جاری رکھنا چینی بھارتی تصادم کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہے۔

ان حالات میں عمران خان کی حکومت کی امریکی حکومت سے پاکستان اور بھارت کے تنازعات میں غیر جانب دار رہنے اور کشمیر میں مصالحت کرانے کی درخواستیں مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہیں۔

مقبوضہ کشمیر پر صرف بھارت کا نہیں امریکی سامراج کا بھی قبضہ ہے اور برصغیر میں امریکی تسلط کو ختم کیے بغیر تنازع کشمیر کا کوئی پرامن حل حاصل کرنا ناممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں

غزہ

عطوان: دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ ایک بڑی علاقائی جنگ کی چنگاری ہے

پاک صحافت عرب دنیا کے تجزیہ کار “عبدالباری عطوان” نے صیہونی حکومت کے ایرانی قونصل …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے