بجٹ

عوام دوست بجٹ

اسلام آباد (پاک صحافت) پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ اعلان کے بعد سے ملک میں گہما گہمی اور ہلچل مچ گئی ہے۔ سیاستدانوں، تاجروں، صنعتکاروں اور عوام میں بھی اس حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بجٹ کو عوام دشمن اور مہنگائی و بے روزگاری میں مزید اضافے کا باعث قرار دے رہے ہیں جبکہ حکومت کہہ رہی ہے کہ نئے سال کے بجٹ سے ملک میں ترقی و خوشحالی آئے گی۔ اگر ہم غیرجانبداری کے ساتھ حکومتی بجٹ اور موجودہ صورت حال کا جائزہ لیں تو آنے والے دنوں میں جو کچھ ہوگا وہ ابھی سے ہی ہمارے سامنے آجائے گا۔ حکومت گزشتہ دو سالوں میں مضبوط بجٹ پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جبکہ یہ تیسرے سال کا بجٹ بھی گزشتہ دو بجٹوں کا یوٹرن قرار دیا جارہا ہے۔ اعلانات بڑے بڑے اور حقیقت میں عوامی مسائل پر کوئی توجہ نہیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس ٹیکسوں میں نہ صرف اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ بعض شعبوں میں ٹیکسوں میں کمی اور چھوٹ دی گئی ہے۔ خواہشات پر مبنی 900 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے جبکہ رواں سال ترقیاتی بجٹ پر 200 ارب روپے سے زیادہ خرچ نہیں کیا جا سکا۔ دو سال میں اگر معیشت میں کوئی بہتری آئی ہوتی تو رواں سال کے ترقیاتی بجٹ میں کم از کم نظر تو آتی۔ دو سال میں ایسا کون سا معجزہ رونما ہو گیا ہے کہ تیسرے بجٹ میں ’’ سب کو خوش ‘‘ کر دیا گیا ہے اور مالیاتی وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ آئندہ سال نوجوانوں کو کاروبار کرنے اور کسانوں کو اپنی فصلوں کی کاشت کیلئے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے۔

ملک میں تو ’’آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ‘‘ والی صورت حال ہے۔ یہ محاورہ کسی اور نہیں ہماری معیشت کیلئے ہی معرض وجود میں آیا تھا کہ ’’سر ڈھانپوں تو پائوں ننگے اور پائوں ڈھانپوں تو سر ننگا‘‘۔ جس ملک معاشرہ میں وسائل کی اکثریت پر ایک اقلیت کی مکمل اجارہ داری ہو وہاں عوام دوست بجٹ کا کیا کام؟ ہمارے بجٹ تو بدمست ہاتھی کے دانت ہوتے ہیں، کھانے کے اور دکھانے کے اور اس لئے خوامخواہ کے تبصروں تجزیوں کی گنجائش ہی نہیں۔ فی الحال تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو، دو چار مہینوں میں بجٹ خود بتا دے گا کہ وہ کیسا ہے۔ میرا مخلصانہ مشورہ تو یہی ہوگا کہ کسی کی بات پر کان نہ دھریں کیونکہ چند ہفتوں کے اندر اندر آپ کے گھر کا بجٹ آپ کو بتا دے گا کہ حکومتی بجٹ کیسا ہے؟

یہ بات تو واضح ہے کہ جب تک ہم آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لیتے رہیں گے عوام دوست بجٹ بنانے میں ناکام ہی رہیں گے۔ ملکی معیشت تب ہی مضبوط و مستحکم ہوسکتی ہے جب ہم بیرونی وابسطگیوں کو ختم کرکے اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کی کوشش کریں گے۔ ملک میں سیاسی استحکام کے ذریعے ہی معاشی استحکام قائم کرنا ممکن ہے۔ امید ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے بجائے اپنی عوام کی خوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی و معاشی پالیسیاں بنانے کے ساتھ ساتھ اہم فیصلے بھی کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں

کتا

کیا اب غاصب اسرائیل کو کنٹرول کیا جائے گا؟ دنیا کی نظریں ایران اور مزاحمتی محور پر

پاک صحافت امام خامنہ ای نے اپنی کئی تقاریر میں اسرائیل کو مغربی ایشیا میں …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے