ریپ

ریپ کو کیسے روکیں؟

اسلام آباد (پاک صحافت) پاکستان میں آج کل ریپ کے کیسز میں ہوشربا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ آئے روز کہیں نہ کہیں کوئی ریپ کا واقعہ ضرور رپورٹ ہوتا ہے۔ بلکہ اب تک ایک ہی دن میں متعدد واقعات بھی رپورٹ ہونے لگے ہیں۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے واقعات میں اضافہ اس معاشرے کے ماتھے پر بدنما داغ اور دنیا بھر میں بدنامی کا باعث ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ان واقعات کو کیسے روک سکتے ہیں؟ کیا ریپ کیسز کی روک تھام ممکن بھی ہے یا نہیں؟ ہمیں ان معصوم بچوں اور خواتین کو جنسی درندوں سے بچانے کے لئے کیا کرنا ہوگا؟

گزشتہ دن وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کو پردے کا خیال رکھتے ہوئے کپڑے پورے پہننے چاہیئں۔ کم کپڑے پہنے خاتون مرد حضرات کو گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس کے بعد مرد جنسی زیادتی جیسے قبیح فعل پر اتر آتا ہے۔ اگر وزیراعظم صاحب کی یہ بات درست مان بھی لیں تو پھر بچوں کے ساتھ ریپ کی کیا وجہ ہے؟ کیوں کہ بچے تو کپڑے پورے پہن لیتے ہیں۔ حجاب کی رعایت اور صحیح کپڑے پہن کر خاتون کا گھر سے باہر نکلنا یہ ایک اچھا قدم ہے اور اس سے فحاشی کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن ریپ کیسز کی وجوہات میں اور بھی ایسے متعدد عوامل شامل ہیں۔ جن کا خاتمہ کئے بغیر ہم جنسی زیادتی کو روک نہیں سکتے۔

ٹی وی اسکرین پر فحش و نازیبا پروگرامز بھی جنسی زیادتی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بے پردہ خواتین کا اسکرین پر آنا، بے ہودہ اور فحاشی پر مبنی ڈرامے اور فلموں کی نمائش سے ریپ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہر انسان کا اپنا ایمان کمزور ہونا، اسلامی تعلیمات سے دوری اور بروقت شادی نہ کرنا بھی جنسی زیادتی کے اہم عوامل میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قوانین میں نرمی، ریپ میں ملوث فرد کو سزا نہ دینا اور طاقتور افراد کو کھلی چھوٹ دینا بھی اہم وجوہات ہیں۔ اکثر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ جنسی زیادتی طاقتور کررہا ہے۔ جو اپنی طاقت، دولت اور عہدے کے نشے میں مست ہوکر کمزور پر ظلم کررہا ہوتا ہے۔

اگر ریپ کیسز میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے، خواتین پردے کا خیال رکھیں، ٹی وی اسکرین پر فحش پروگرامز بند کئے جائیں، ہر مسلمان اپنے ایمان کو اور خدا کے ساتھ رابطے کو مضبوط کرے، بروقت شادیوں کو فروغ دیا جائے۔ تو جنسی زیادتی کے کیسز کو قابو پانے میں بڑی حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ہم ریپ کو روکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آخری بات یہ کہ ہمیں نفرت انسان سے نہیں بلکہ جرم سے کرنی چاہئے۔ ممکن ہے جرم کوئی ڈاکٹر کرے، انجینئر کرے، ٹیچر کرے، تاجر کرے، ڈرائیور کرے یا کوئی مولوی اس کا مرتکب ہو۔

یہ بھی پڑھیں

غزہ

عطوان: دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ ایک بڑی علاقائی جنگ کی چنگاری ہے

پاک صحافت عرب دنیا کے تجزیہ کار “عبدالباری عطوان” نے صیہونی حکومت کے ایرانی قونصل …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے