بجٹ

بجٹ کی کتاب

کراچی (پاک صحافت) پاکستانی عوام کی جانب سے منتخب معزز اراکین قومی اسمبلی نے گزشتہ دنوں ایوان میں قومی غیرت کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مسلسل تین دن تک ایوان میں جاری ہلڑ بازی، گالم گلوچ اور بداخلاقی و بدتہذیبی نے ہر پاکستانی شہری کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ عوام نے نمائندوں کو اس لئے نہیں چنا تھا کہ وہ اسمبلی میں یہ کارنامے انجام دیں بلکہ انہیں اس لئے چنا گیا تھا کہ وہ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ عوام کو درپیش مسائل کے حل میں کردار ادا کریں۔ معزز ممبران تین دن تک بجٹ کی کتابیں ایک دوسرے کو مارنے میں مصروف رہے۔ جی ہاں عوام کے لئے پیش کی جانے والے بجٹ کی کتابیں۔

یہ وہی بجٹ کی کتابیں ہیں جنہیں حکمران عوام کی تقدیر بدلنے کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ ان کتابوں کے اندر اللہ تعالی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے اسمائے مقدسہ بھی درج ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھے اور مسلمان ممبران قومی اسمبلی نے انہیں کتابوں کو ایوان کے اندر ایک دوسرے پر پھینکا ہے اور یہ کتابیں ادھر ادھر گرتی رہی ہیں۔ کیا ان لوگوں کے اس اقدام سے توہین رسالت و اسلام ہوئی ہے یا نہیں اس کا باقاعدہ فتوی تو کوئی عالم دین ہی دے سکتا ہے۔ لیکن عوام کی نظر میں ان لوگوں نے نہ فقط اسلام و پیغمبر اسلام بلکہ عوام کی بھی بدترین توہین کی ہے۔

قومی اسمبلی اجلاس کی ویڈیوز میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ ممبران ایک دوسرے کو بازاری افراد کی طرح ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ اتنی اخلاقی گراوٹ وہ بھی عوامی نمائندوں میں یہ کوئی معقول بات نہیں ہے۔ بہرحال عوام کے لئے پیش کی جانے والے بجٹ کی کتابیں تو ان لوگوں نے اسمبلی میں پھینک کر اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ عوامی مسائل کے ساتھ ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ بجٹ کی کتاب کس کام کی جو ایک دوسرے کو مارنے کے کام آئے۔ شاید اس سے زیادہ اس کا استعمال کوئی نہ ہو۔ یہ کتابیں شاید اسی لئے چھاپ کر اسمبلی لے جائی گئی تھیں کہ ان کو ایک دوسروں پر مار کر یہ ثابت کریں کہ ہمیں عوامی مسائل سے کوئی مطلب نہیں۔ ہمیں اپنی لاکھوں کی تنخواہ اور کروڑوں کے فنڈ سے غرض ہے جن کے حصول کے لئے عوام کو بے وقوف بناکر ہم اس مقدس ایوان میں تشریف لائے ہیں۔

ماضی کی اسمبلیوں میں اسپیکر طے کرتا تھا کہ کس وقت کس کو فلور دینا ہے لیکن یہ ایسی اسمبلی میں ہے جس میں عملاً اسپیکر کے پاس یہ اختیار نہیں۔ یہاں عمران خان یہ طے کرتے ہیں کہ اگر اپوزیشن سے فلاں بندہ خطاب کرے تو اس کے بعد مراد سعید کو فلور دینا ہوگا اور فلاں کرے تو اسد عمر کو فلور دینا ہوگا جبکہ اسپیکر اس سے سرِمو انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جن کو حکومت دلوائی گئی ہے، ان کو حکومت کرنا نہیں آتی اور جن کو اپوزیشن میں دھکیلا گیا ہے، ان کی کوئی ادا اپوزیشن والی نہیں۔ بلکہ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا نظام ہے کہ جس میں حکومت ہے اور نہ اپوزیشن بس ملک اللہ کے سہارے چل رہا ہے اور بجٹ کی کتابیں ایک دوسرے کو مارنے کے کام آتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

الاقصی طوفان

“الاقصیٰ طوفان” 1402 کا سب سے اہم مسئلہ ہے

پاک صحافت گزشتہ ایک سال کے دوران بین الاقوامی سطح پر بہت سے واقعات رونما …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے